داعشی خوارج نے پاکستانی طالبان کو انٹیلی جنس پراکسی گروپ قرار دیا

حال ہی میں شائع ہونے والی ایک کتاب میں، داعشی خوارج نے پاکستانی حکومت کے خلاف لڑنے والے طالبان کو ایک انٹیلی جنس پراکسیگ روپ قرار دیا ہے۔

یہ بات “جمیعتیان: جمہوریت پسند مرتدین” نامی کتاب میں کی گئی ہے جسے داعشی خوارج کے قضاء اور افتاء سیکشن کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے لکھا ہے۔ کتاب میں پاکستان کے سیاسی گروہوں پر ارتداد کا فتویٰ لگایا گیا ہے، اور پاکستانی طالبان کو بھی ’’جہاد کے نام پر انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نمائیندگی کرنے والے گروپوں” میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔

قابلِ غور بات یہ ہے کہ اب تک داعش کے خوارج پاکستانی طالبان کے خلاف عام طور پر نرم زبان استعمال کرتے رہے ہیں کیونکہ داعش کے کچھ رہنما امید کرتے تھے کہ اس جہادی تنظیم کے کچھ لوگ دوستی کی بنیاد پر ان کی صفوں میں شامل ہوں گے۔ لیکن ان حالیہ بیانات سے لگتا ہے کہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے اور پاکستانی طالبان میں سےکوئی بھی خوارج گروپ میں شامل ہو کر مسلمانوں کو قتل نہیں کرنا چاہتا۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جب ابوبکر البغدادی نے شام اور عراق میں نام نہاد خلافت کا اعلان کیا اور اس کے حامی افغانستان میں نمودار ہوئے تو داعش نے مجاہدین کے مضبوط ٹھکانوں پر حملے شروع کر دیے۔ خراسانی خوارج نے تحریک طالبان پاکستان کے مجاہدین سے بھی کہا کہ وہ بغدادی کی بیعت کریں اور ان کے علاوہ دیگر تمام جہادی تنظیموں سے دستبردار ہوجائیں۔

تاہم پاکستانی طالبان کی رہبری شوری نے ۱۴۳۶ ہجری میں رمضان المبارک کے مہینے میں 111 صفحات پر مشتمل رسالے میں اپنی تحریک کا باضابطہ موقف شائع کیا۔ اس رسالے میں پاکستانی طالبان نے بغدادی کی اعلان کردہ خلافت کو باطل اور قرآن مجید کی آیات، احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور علمائے کرام کے اجماع کے بنیاد پر نام نہاد خیالی حکمرانی قرار دیا۔ اور واضح کردیا کہ بغدادی صحیح شرعی خلیفہ نہیں ہو سکتا۔ اس وقت پاکستانی طالبان کا بیان آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔اس وقت پاکستانی طالبان کا بیان آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔

داعش کی قیادت کو مجاہدین اور عام مسلمانوں کے قتل سے رُکنے پر آمادہ کرنے کے لیے، پاکستانی طالبان نے رسالے میں داعش اور ان کے رہنماؤں کے لیے نہایت نرم اور شائستہ الفاظ استعمال کیے تھے۔ لیکن آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ داعش خارجیوں نے ان نرم اور شائستہ الفاظ کا کتنا بدتمیز اور توہین آمیز جواب دیا ہے – اور یہ ابھی تک معلوم نہیں ہے کہ وہ اپنے جواب میں اخلاق اور شریعت کی کتنی دوسری حدود کو پامال کریں گے۔

ابوحمزه مؤحد
Exit mobile version